مرحباحسنِ سراپائے رسولِﷺ محترم

April 12, 2024
شمارہ -۲۴قصیدہ

مرحباحسنِ سراپائے رسولِﷺ محترم

نعت نگار: سیدعارف معین بلے

نور ِ اوّلین و آخرین ۔ محبوب ِ رب العالمین ، رحمۃ للعالمین حضرت محمد مصطفیٰ احمدِ مجتبیٰﷺبلاشبہ دست ِ قدرت  کا ایک شاہکار تھے۔ ان کی دلکشی ، خوبصورتی ، اور رعنائی کے کیا کہنے ۔ قر آن کی بہت سی آیات میں ان کے حسن و جمال کا ذکر جمیل بیان کیا گیا ہے ۔ سیکڑوں احادیث ِ نبوی ﷺ میں  ان کے شمائل  ہماری توجہ کا مرکز بنتے ہیں ۔مقبول و معروف قصیدہ ء بردہ شریف میں  بھی  حضور نبی ءکریم ﷺ کے خصائل اور فضائل اجاگر کئے گئے ہیں ۔ اسی قصیدہ ء بردہ شریف کی زمین میں  بہت سی نعتیں لکھ کر قادرالکلام شاعر سید عارف معین بلے نےاپنے تخلیقی اور جمالیاتی رنگ دکھائے ہیں ۔مولا یا صل وسلم  نعتیہ سیریز  کے تحت ۔ مرحبا ، حسن ِ سراپائے رسول  ﷺمحترم ۔بھی سیدعارف معین بلے کی خوبصورت نعت اسی سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے۔اس نعت میں سیدعارف معین بلے نے قرآن و احادیث ِ نبوی ﷺ کے آئینے میں رسول ِ رحمت  ﷺکے شمائل کو اپنے موضوع بنایا ہے ۔قصیدہء بردہ شریف کی زمین میں اس سے پہلے ایسا کوئی کام نہیں کیاگیا۔ ہم نے قصیدہ ء بردہ شریف کی زمین میں قادرالکلام شاعرسیدعارف معین بلےکی نعتیں دیدبان کی زینت بنانے کاجوسلسلہ شروع کررکھا ہے، اسی کو آگے بڑھاتے ہوئے۔ یہ معرکۃ الآرا ۔مولا یا صل وسلم ۔مرحبا حسن سراپائے رسول ﷺمحترم  ۔کی صورت میں یہ  چوتھی قسط آپ کے سامنے ہے۔مئی 2024 کے دیدبان کے شمارے میں  اسی زمین میں نبیء رحمت ﷺ کی شان ِ اقدس میں آپ سیدعارف معین بلے کی ایک اور نعت ملاحظہ فرماسکیں گے۔ فی الحال آپ ملاحظہ فرمائیے ۔مرحبا،   حُسنِ سراپائے رسولِﷺمحترم۔ ہمیں یقین ہے کہ یہ نعتیہ کلام پڑھ کر آپ کے دل میں آتش ِ عشق ِ مصطفی ﷺبھڑک اُٹھے گی ۔ { ادارہ }

مرحباحسنِ سراپائے رسولِﷺ محترم

نعت نگار: سیدعارف معین بلے

مولا یا صلِ وسلم ہےزباں پر دَم بہ دَم

دیدنی ،   حُسنِ سراپائے رسولِﷺمحترم

سب رسولوں کے محاسن آپﷺ کو بخشے گئے

تھے سبھی اوصاف نبیوں کے مِرے مولا ﷺمیں ضَم

حضرتِ آدم کی بے شک تھی جلالت آپﷺ میں

معرفت تھی شیث کی، موسیٰ کا تھا جاہ و حشم

نوح سے بڑھ کر جواں مردی تھی مولا آپﷺ میں

دوستیبوالانبیاء کی  بھی تھی بادرجہ اَتَم

پاک دامانی تھی یحییکی، رضا اسحاق کی

لوط کی حکمت کےحامل تھے نبیِ ءﷺمختتم

دیکھی صالح کی فصاحت بھی جہاں نے آپﷺ میں

آپ ﷺاُمی ہوکے افصح العرب تھے، والقلم

لحن ِ داؤدی عطا فرمایا  رب نے آپﷺ کو

یہ بتاتے تھے ہمیں آواز کے سب زیر و بَم

اُمِ معبد نے جمالِ مصطفیٰ ﷺکو دیکھ کر

کھینچ کررکھ دی تھی تصویرِ رسولِ ﷺمحترم

آپ ﷺمیں ایثار اسماعیل کا دیکھا گیا

کردیا تھا رب نے ان میں حُسنِ یوسف کو بھی ضَم

آپ ﷺسا کوئی نہیں ہے پوری دُنیا میں حسیں

ملکوں ملکوں ڈھونڈ لو، ملک ِ عرب، ارضِ عجم

دیدنی ہیں مرحبا سارے شمائل آپﷺ کے

آپﷺ ہیں شہکار قدرت کا رسولِ ﷺمحترم

آگئے ہیں کالی کملی اوڑھ کر سرکارﷺ کیا؟

سامنے پردے میں ہے لِپٹا ہوا بیت الحرم

نبیوں نے آکر دکھائی تھی جھلک سرکارﷺکی

آپ کے بارے میں بس اتناہی کہہ سکتے ہیں ہم

آنکھ بھر کر دیکھنے کی تاب لاسکتے نہ تھے

کیا کہیں کیسا تھا؟ مولا ﷺآپ کا جاہ و حشم

روئے انور دیکھ کر رکھ لیتے تھے آنکھوں پہ ہاتھ

ڈر تھا یہ حَسَان کو بینائی ہوجائے نہ کم

دستِ قدرت نے اجالوں میں شفق کو گھول کر

رنگ کو بھی روپ کاسامان پہنچایا بہم

مرحبا صلِ علیٰ مولا شمائل آپﷺ کے

ہونہیں سکتے بیاں، لکھے گا کیا؟ اپنا قلم

اللہ اللہ ۔  والضحیٰ، واللیل، مازاغ البصر

آپﷺ کا قرآن میں حسنِ سرا پا ہے رقم

حُسن کی معراج ہے مولا سراپا آپﷺ کا

دستِ قدرت کا حَسیں شہکار از سرتا قَدَم

مرحبا تھی خوب مردانہ وجاہت آپ ﷺکی

دیکھ کردل تھام لیتے تھے سبھی عالی ہَمَم

چودھویں کا چاند بھی نکلے تو پڑ جاتا تھا ماند

والضحی ٰکہتے تھے اصحابِ ِ  نبیِ ء ﷺمحتشم

پھوٹتی تھیں روئے روشن سے بھی کرنیں نور کی

آپﷺ کا نورانی چہرہ تھا رسولِﷺ محترم

آئینہ سچائی کا بے شک تھا چہرہ آپﷺ کا

والضحیٰ،   صلِ علیٰ، بدرالدجیٰ، شمس الظُلَم

روئے روشن آپﷺ کا بے شک کھلا قرآن تھا

آپﷺ کے اصحاب کہتے تھے نبیِ ءﷺمختتم

جیسے چاندی میں کسی نے گھول رکھے ہوں گلاب

اللہ اللہ رنگتِ جسمِ رسولِ ﷺمحتشم

دستِ قدرت نے کیا سینہ کشادہ آپﷺ کا

آپﷺ کی پشتِ مبارک کاکیا ہے بوجھ کم

سُرمگیں آنکھیں، سیہ زلفیں تھیں مولا آپ کی

پیکرِ حُسنِ مکمل تھے رسولِ ﷺذی حَشَم

تھیں بھنویں پَتلی مِرے مولا کی، تو پلکیں دراز

سُرخ ڈورے آپﷺ کی آنکھوں میں تھے شاہِ اُمَم

اَبرووں کے درمیاں رَگ تھی جبینِ پاک پر

جوابھرآتی تھی غصے میں ہمیشہ ایک دَم

چوڑی پیشانی، کشادہ سینہ، اونچی ناک تھی

رشکِ یوسف تھے یقیناً پیکرِ حُسنِ اَتم

تھی جبیں ایسی کہ جیسے ہو کوئی روشن چراغ

اس کے آگے روشنی سورج کی پڑ جاتی تھی کم

یہ بتاتی ہے جبیں اس پر شکن ابھری نہیں

خندہ پیشانی سے پیش آتے تھے سرکارِﷺ اُمم

لب کُشاہوتے رسولِ پاک تو جھڑتے تھے پھول

خوب صورت تھاتبسم آشنا، مولا   ﷺکا فَم

دانتوں کی ریخوں سے کرنیں پھوٹتی تھیں نور کی

مسکرا اُٹھتے تھے جب سرکارِ ﷺاکرم الاُمم

دستِ قدرت نے سجارکھے تھے موتی سیپ میں

آپ ﷺکے دنداں تھے مولا پرتوِ حُسنِ اَتم

کس سے دوں تشبیہ مولا آپﷺ کی مسکان کو

مسکراہٹ اَدھ کھلی کلیوں میں بھی ہوتی ہے کم

سچے موتی جڑ دیے ہوں جیسے اِک ترتیب سے

دیدنی تھا حُسنِ دندانِ رسولِ ذی حَشَم

لب تھے یاقوتی مگر یاقوت سے بڑھ کر حَسیں

تھی چمک دنداں میں ایسی، موتیوں میں ہوگی کم

دل کشی گوشِ مبارک کی، لبوں کی نازکی

دیکھ کر پڑھتے درودِ پاک اصحابِ کرم

ہے سماعت کے حوالے سے یہ فرمانِ رسول

آپ سُن سکتے نہیں جوکچھ، وہ سُن سکتےہیں ہم

آسماں پر بھی کوئی آہٹ ہو سُن سکتے ہیں آپ

یہ بھی قوت آپ ﷺکو پہنچائی ہے رَب نے بہم

گوش ِ اقدس کی لووں کو چومتی زلفیں حضور

چاند کے مکھڑے پہ ہے سایہ فگنابرِ کرم

غیر پیوستہ کمانیں آپﷺ کے ابرو کی ہیں

ریشمی زلفیں مِرے مولا کی ہیں پُر پیچ و خم

مولا ﷺگھنگھریالیزلفوں کازمانہ ہے اسیر

اِس اسیری پر ہے دُنیا خوش  رسول ِ ﷺمحترم

خوب صورت نسبتاً پتلی تھی گردن آپﷺ کی

سچ ہے یہ   ، اس کو صُراحی دار کہنا ہوگا کم

جیسے چاندی کی صُراحی سونے سے لبریز ہو

کیا حسیں گردن ہےجس میں ہوگئے دو ،رنگ ضَم

سر بڑا سردار کاتھا، بیچ میں اِک مانگ تھی

پیکرِ حُسنِ مکمل تھے نبیِ  ء ﷺمختتم

ہوگئی بے شک ملاحت ختم مولا آپﷺ پر

دوسرا کوئی نہیں، ایسا کہاں سے لائیں ہم ؟

کون واقف ہے حقیقت سے مِری، رب کے سِوا؟

یہ بھی فرمانِ رسولِﷺپاک ہے رَب کی قَسَم

عرش بھی سارا پگھل جاتا تجلیاتسے

یوں ہوا بےشک ظہورِ نورِ کامل کم سے کم

ساری مخلوقات ہوجاتیں فنا کہتے ہیں لوگ

ظاہر ہوجاتے جو انوارِ رسولِ ﷺمحتشم

قامتِ زیبا میانہ تھا رسول اللہ ﷺکا

سب میں آتے تھے نظر ممتاز سرکارِ ﷺاُمَم

جسمِ اطہر پر  کوئی دھبہ ،  نہ کوئی داغ تھا

حُسن کا پیکر تھے مولا آپﷺ سر تا بہ قدم

آپﷺ دُبلے تھے نہ موٹے جسم پر مضبوط تھا

آپﷺ کا نکلا ہوا باہر نہ تھا مولا شِکَم

شخصیت میں رکھ رکھاؤ تھا ،بڑا ٹھہراؤ تھا

معترف تھے اس کے اصحابِ ِ رسولِ ﷺذی حشم

ناف تک سینے سے تھی بالوں کی ہلکی سی لکیر

پاک تھابالوں سے ورنہ جسمِ  پورا محترم

سینہ ہی کیا جوڑ بھی تو تھے کشادہ آپ ﷺکے

آپ ﷺکے شانوں پہ تھا اللہ کا دستِ کرم

آپﷺ کے دستِ مبارک کی تھیں لمبی انگلیاں

تلوے قدرے گہرے تھے، ہموار تھے لیکن قَدَم

سچ اگر پوچھو کفِ دستِ رسالتﷺ تھے گداز

آپﷺ قدرت کاحسیں شہکارتھے، رب کی قسم

رنگ تھا مائل بہ سُرخی، تھی کلائی بھی دراز

آپ ﷺکے انگ انگ میں رعنائیاں مولا تھیں ضَم

ہاتھ جو کوئی ملاتا، مانتا تھا یہ حضور

ہے ملائم آپ ﷺکا ریشم سے بھی دستِ کرم

آپﷺ قاسم ہی نہیں مولا ابوالقاسم ہیں آپ

آپﷺ کے دستِ مبارک میں ہے تقدیرِ اُمم

آپ ﷺکی مٹھی میں ہیں دونوں جہاں کی نعمتیں

آپﷺ کے در کے گدا مختار و سلطان و خَدَم

چلتے تو نعلین کی آواز بھی آتی نہ تھی

تھے بڑے نرم و ملائم آپﷺ کے مولا قدم

حُسن ِیوسف میں صباحت ہے، ملاحت آپﷺ میں

دونوں رعنائی میں یکتا ہیں، نہیں ہے کوئی کم

ہے شمائل کا یقیناً تذکرہ   وجد آفریں

آفریں صد آفریں، یا سیدِ ﷺخیرالامم

جیسے بہتا ہے کوئی دریا کسی ڈھلوان پر

جھک کے چلتے تھے مگر تیزی سے اٹھتے تھے قدم

بولتی تھی میرے مولا خامشی بھی آپﷺکی

دھیما لہجہ بھی اتر جاتاتھا دل میں، ایک دَم

بولتے تو کانوں میں رس گھول دیتے تھے حضور

دل نشیں طرزِ تکلم تھا، حلاوت کی قسم

حق بیاں گوہر فشاں بے شک زباں تھی آپﷺ کی

ترجمانِ ایزدی ہی اس کو کہہ سکتے ہیں ہم

تھا لب و لہجہ حسیں، آواز میں تھا دبدبہ

لحنِ داودی یقیناً ہوگیا تھا،   اس میں ضم

اہلِ مجلس غور سےسنتے تھے اِک اِک لفظ کو

رَس بھری آواز میں بھی تھا بڑا جاہ و حَشَم

سچ تو یہ ہے آپﷺ کی آواز دلآویز تھی

چاشنی تھی اس میں ایسی، شہد میں بھی ہوگی کم

گونج دیتی تھی سنائی اس کی بے شک دورتک

نغمگی تھی، صوت کی رعنائیاں تھیں اس میں ضَم

کیا نظر تھی یہ پتا چلتا ہے اس فرمان سے

تم نہیں جو دیکھ سکتے، دیکھ سکتے ہیں وہ ہم

عرش سے تحتُالثریٰ تک دیکھ سکتے تھے حضور

مرحبا صلِ علیٰ، نگہِ رسولِ ﷺمحترم

پُشت کے پیچھے ہے کیا؟ یہ دیکھ سکتے تھے حضور

آپ ﷺسے مخفی نہیں تھا، کچھ نبیِء مختتم

آنکھ بھر کر دیکھتے کم تھے، حیا آنکھوں میں تھی

نظریں نیچی رکھتے تھے اکثر رسولِ ﷺمحترم

تھی گھنی ریشِ مبارک سرورِ کونینﷺ کی

چہرے کی زینت تھی یہ نورِ محمدﷺ کی قسم

دونوں جانب سے برابر آپ رکھتے تھے اِسے

آبرو کا یہ نشاں تھی، سیدِ ﷺوالا حَشَم

جسمِ اطہر آپﷺ کا آلائشوں سے پاک تھا

تھے نظافت میں بھی یکتا،پیکرِ حُسنِ اَتم

جس طرف جاتے مِرے مولاﷺ مہک جاتی فضا

اللہ اللہ خوشبوئے جسمِ رسولِﷺذی حَشَم

خوش بووں کا اِک خزینہ تھا پسینہ آپ ﷺکا

ہیچ تھا ہر عطر، کستوری تھی مولا ﷺاِس سے کم

یہ بھی ہے برکت لعابِسید ﷺلولاک کی

ہوگیا کھارے کنویں کا پانیمیٹھا ایک دَم

ہے علاج، آشوبِ ِ چشمانِ علی کا بھی لعاب

ہے مداوا دُکھ کا،  راحت بخش ہے اکسیرِ غم

سچ اگر پوچھو تو اِک مہرِ نبوت ثبت تھی

لوگ کہتے ہیں کہ تھا پُشتِ مبارک پر پَدَم

نُطق بے شک آپﷺ کا نطقِ الہیٰ ہے حضور

رب کا ہے فرمان، فرمانِنبیِ ءﷺمختتم

لانہیں سکتی تھیں نظریں آپ ﷺکے جلووں کی تاب

ہو بیاں کیسے؟ جمالِ سیدِﷺ خیرالاُمم

مرحبا صلِ علیٰ مولا شمائل آپﷺ کے

مرحبا حسنِ سراپائے رسولِ ﷺمحترم

یہ بھی سچ ہے جسمِ اطہر کا کوئی سایہ نہ تھا

آپ ﷺکے ہے زیر سایہ، یہ جہاں ، رب کی قسم

مرحباحسنِ سراپائے رسولِﷺ  محترم

نعت نگار: سید عارف معین بلے

سید عارف معین بلے

سید عارف معین بلے کا ادبی اور صحافتی سفر

عارف معین بلےکی ادبی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ۔ ان کا نسب نامہ شاہ ِ اجمیر سلطان الہند خواجہ غریب نواز حضرت معین الدین چشتی سنجری اجمیری رحمۃ اللہ علیہ سے ہوتاہوا مولائے کائنات حضرت علی المرتضی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم اور خاتون ِ جنت بی بی فاطمۃ الزھرا سلام اللہ علیھا سے جاملتا ہے۔انہوں نے کئی زبانوں میں تخلیقی اور تحقیقی کام کیا ہے۔ اردو، انگریزی، عربی اور فارسی زبانوں کی بنیادپران کا کام اہل ِ ادب کی توجہ کامرکز بنارہا ہے اور اب بھی ہے ۔سید عارف معین بلے ایک ادیب، صحافی ، دانشور ،مصنف ، مولف، محقق مترجم اور صاحب ِ طرز شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ بہت کچھ ہیں ۔انہوں نے قرآن حکیم کی کئی سورتوں کے منظوم اردو تراجم کئے ہیں ۔سورہ ء مزمل ، سورہ فاتحہ ،اور درود تاج کا منظوم اردو ترجمہ اتنا شان دار ہے کہ علماء و مشائخ اور علمی ادبی شخصیات نے اسے قابل قدر کوشش کا نام دیاہے۔ قصیدۂ بردہ شریف بھی عربی زبان میں ہے ، انہوں نے اردو میں نہ صرف اس کامنظوم ترجمہ کیا ہے بلکہ مولا یا صلّ ِ وسلم دائماً ابداً کو بنیاد بنا کر قصیدۂ بردہ شریف کی زمین میں بیسیوں نعتیں کہی ہیں اور ہر نعت میں مولا یا صل وسلم دائماً ابداً کی معنوی گونج سنائی دیتی ہے۔قصیدۂ بردہ شریف کا قصیدہ بھی سید عارف معین بلے کا ایک معرکۃ الآرا شاہکار ہے ۔اس میں انہوں نے پورےقصیدۂ بردہ شریف کو بالعموم اور اس قصیدے کی پہچان مولا یا صلّ وسلم دائماً ابداً کو بالخصوص اپنی مدحیہ شاعری کا مرکز و محور بنایا ہے۔ عالم ِ اسلام کی خاتون ِ اول بی بی خدیجۃ الکبریٰ کی منظوم سوانح ِ زندگی ۔بھی سیدعارف معین بلے کی ایک تخلیقی اور تحقیقی کتاب ہے۔یہ قرآن واحادیث کے آئینے میں معتبر اور مستند تاریخی حوالوں کے ساتھ شعری زبان میں لکھی گئی ہے۔ اس کاانتساب انہوں نے اپنی والدہ محترمہ مہر افروز المعروف ۔مہرو ۔کے نام کیا ہے ، یہ انتساب ہی نہیں انہوں نے اس تاریخی کتاب کا دیباچہ بھی منظوم لکھاہے ۔سیدعارف معین بلے نے عظیم المرتبت شاعر مولانا عبدالرحمان جامی کی بہت سی معروف فارسی نعتوں کا بھی اردو زبان میں منظوم ترجمہ کیا ہے ،جو بڑے بڑے نعت خوانوں نے نعتیہ محافل میں پیش کرکےنام کمایا اور جن کی گونج جنوبی ایشیاء کے ممالک خصوصاً پاکستان ، بھارت اور بنگلہ دیش میں برسوں سے سنائی دے رہی ہے۔سیدعارف معین بلے ان مدحیہ کاوشوں کو " جامی کی نعتیں ، اب اردو زبان میں " کے عنوان کے تحت سامنے لائے ہیں ۔ انگریزی زبان میں بھی سید عارف معین بلے نے اپنا خوبصورت رنگ جمایا ہے ۔ انہوں نے اپنی کسی کتاب یا اس کے کسی باب کےلئے جو عنوان بھی منتخب کیا ہے ، اس کے تمام انگریزی حروف کو الگ الگ کرکے لکھا ہے ۔اسے ۔ایکروسٹک فارم آف رائیٹنگ کہا جاتا ہے ۔ اردو میں اسے صنعت ِ توشیح کہتے ہیں ۔اس اکروسٹک آسٹائل آف رائیٹنگ میں ان کی جودوکتابیں آئی ہیں، وہ درج ذیل ہیں ۔اور اس میں انہوں نے اپنے تجربات اور مشاہدات کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ سمیٹا ہے ۔

These books are written in a.c.r.o.s.t.i.c form of writing

1. A B CS’ OF MODERN JOURNALISM

2. SMART JOURNALISM

3. ان کی کئی انگریزی کتابیں ابھی منصۂ شہود پر جلوہ گرنہیں ہوئیں ۔لیکن نے ۔اسمارٹ جنرل ازم کتاب لکھی تھی تو اس کی تقریب ِ رونماِئی کے موقع پر ٹی وی کے مقبول مذہبی پروگرام صبح ِ نور کے ہردلعزیز میزبان اور لاہور ہائیکورٹ کے ریٹائرڈ جسٹس نذیر احمد غازی نےاسے انقلاب آفریں کارنامہ قراردیا اور کہا تھا "سید عارف معین بلے نےاظہار کےلئے ایک مشکل راستے کا انتخاب کرکے بڑی خوبصورت کتاب لکھی ہے ۔جو وقت کی ضرورت ہے ۔ انگریزی زبان اور بیان پر ان کی گرفت بڑی مضبوط ہے ۔ اردو میں بھی خوب لکھتے ہیں اور یہ مجھے علم کادریا نظرآتے ہیں ۔"

سید عارف معین بلے داتاکی نگری لاہور میں پیدا ہوئے۔گھر میں ادبی ماحول ملا۔بڑے بڑے ادیبوں ، شاعروں اور دانشوروں کا ان کے گھر آنا جانا لگارہتاتھا کیونکہ وہ ان کے والدبزرگوار سید فخرالدین بلے کے قدردان تھے۔اس ادبی ماحول نے سید عارف معین بلے کو فکری جلا بخشی ۔کوئی ایسی صنف ِ شعرو سخن نہیں ، جس میں انہوں نے طبع آزمائی نہ کی ہو۔جب بھی ملک میں کسی بحران نے سراٹھایا، ان کے اندر کاشاعر جاگ اٹھا۔ اپنے پیشہ ورانہ کیرئیر کاآغاز سیدعارف معین بلےنے قومی اخبار روزنامہ سیاست ملتان کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر کی حیثیت سے کیا۔روزنامہ نوائے وقت کے میگزین انچارج ایڈیٹر بھی برسوں رہے۔ روزنامہ نیا دن کے بانی ایڈیٹر کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ روزنامہ نیادور ملتان کے بانی ایڈیٹر کی حیثیت سے بھی انہوں نے کئی برس اپنے رنگ جمائے ۔جہاں جہاں کام کیا، ان کے رفقائے کار نے اس امر کی تصدیق کی کہ یہ بڑے قادرالکلام اورزود نویس شاعر ہیں۔روزنامہ ایکسپریس رحیم یارخاں کے بانی ریذیڈنٹ ایڈیٹر کی حیثیت سے بھی اپنے رنگ جمانے اور دکھانے کااعزاز سید عارف معین بلے نے اپنے نام کیا۔یہ آج کل ٹی وی چینل ایکسپریس نیوز سے کاپی اور کانٹینٹ ڈیسک کے انچارج ہیں ۔ قدآور ٹی وی اینکر محمداسامہ غازی کا اب سے قریباً بیس سال پہلے روزنامہ دنیا کے سنڈے میگزین میں ایک انٹرویو شائع ہواتھا ، جس میں انہوں نے سیدعارف معین بلے کواپنا استاد قراردیاتھا ۔سیدعارف معین بلے کا ادبی ، تخلیقی اور تحقیقی سفرنصف صدی کا قصہ ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اب یہ اپنے ادبی سفر میں کون سا نیا موڑ کاٹتے ہیں ۔.....

Related Posts

Subscribe

Thank you! Your submission has been received!

Oops! Something went wrong while submitting the form